8/15/2012

جمہوریت کے حوالے سے ایک غلط فہمی۔


جمہوریت کے حوالے سے ایک غلط فہمی۔
دورِ حاضر میں بشمول دینی عناصر، لوگوں کے ذہن میں جمہوریت کے حوالے سے ایک مغالطہ یہ ہے کہ جمہوریت 200 سال قبل انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی ایک نئی قسم‘‘لبرل ڈیموکریسی Liberal Democracy ’’ انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ چنانچہ اس کے ساتھ یہ سمجھ لینا ضڑوری ہے کہ اس جمہوریت کی تاریخ کیا ہے اور اس کا سفر کیسے طے ہوا ہے؟
1265؁میں انگلستان کی پہلی انتخابی پارلیمنٹ کی صورت میں ‘‘کامل جمہوریت’’ کی طرف پہلا قدم طے ہوا۔
1517؁ میں جب مارٹن لوتھر(Martin Luthar) نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور اصلاح کے نام پر اپنے مقالے چرچ کے دروازے پر نصب کرکے چرچ سے آزادی کا اعلان کردیا، یہی نظریہ 1688؁ کی ‘‘انگلش سول وار’’ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جبکہ ‘‘سینٹ’’ کے لیڈر کروم ویل(Cromwell) نے انگلستان کے بادشاہ ہنری آئی کو شکست دیکر سولی پر چڑھادیا۔ اس انقلاب کو گلوریس ریولیشن(Golorios Revelotion) کہا جاتا ہے، اور اسی کے بعد بادشاہت کا خاتمہ اور جمہوری دور کا آغاز ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:
1۔ تمامذاہب برابر قرار پائے جس کی رو سے(Freedom of Religon) کا نظریہ سامنے آیا جو کہ (Free from the Religon) یعنی تمام مذاہب سے آزادی کا باعث بنا۔
2۔ کلیسا اور اسٹیٹ میں جدائی ہوگئی یعنی ریاست کے معاملات میں مذہب کا عمل دخل ختم کردیا گیا۔
Bank of England کا قیام عمل میں آیا جس کے ذریعے سرمایا دارانہ نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
4۔ سیاست جاگیرداروں Land Lords سے منتقل ہو کر سرمایہ داری میں منتقل ہوگئی۔
انقلابِ فرانس جس کو انسانی تاریخ میں‘‘جمہوریت’’ کی ابتدا کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے یہ دراصل والٹیئر(Volataire)(1694-1778) اور روسل Rossel(1712-1778( جیسے بدقماش اور بدمعاش انسانوں کے فلسفوں اور نظریات کا نتیجہ تھا، جن کو آج انسانی تاریخ کے عظیم مفکرین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان بدقماشوں کے عقائد میں یہ بات شامل تھی کہ ‘‘عیسائیت’’ پر عمل کرنا دراصل گھر پر کام کرنے والی خادماوں پر لازم ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں اور ان لوگوں کے عشق ومحبت کے فسانے اور زناکاریاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چنانچہ  ان دونوں کی تحریروں کے نتیجے میں 1789؁ انقلابِ فرانس رونما ہوا جس کے درج ذیل بھیانک نتائج نکلے:
لا مذہبیت کو قانونی تشخص حاصل ہوا۔
2۔مذہب سے آزادی حاصل ہوئی ۔یعنی مذہب کو ایک بےکار  شے سمجھا گیا۔
3سیاسی حقوق میں مساوات کے تصور کو تسلیم کیا گیا جس کی رو سے معاشرے کے ہر فرد کے حق رائے دہی کو بغیر کسی تخصیص کے برابر تسلیم کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں (Liberal Democracy)کا فلسفہ معرض وجود میں آیا۔
4۔تقسیم الحکم  یعنی نظام حکومت کو تثلیث کی شکل میں تقسیم کر دیا گیا۔ مقنّہ ،عدلیہ اور انتظامیہ۔
6۔اور یہودیوں کا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار‘‘بینک’’یعنی بینک آف فرانس قیام عمل میں آیا۔
یہ بات بھی قابل بھی قابل غور ہے کہ اس(Liberal Denocracy)کو1900تک یعنی انقلاب فرانس کے 100سال تک بقیہ دنیا میں کوئی  خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور 1900 تک کل تین ہی ممالک یعنی امریکہ ،برطانیہ اور فرانس ان جمہوری اصولوں پر قائم تھے‘‘جمہوریت’’کو اصل فروغ پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور خصوصا جنگ عظیم دوم کے بعد حاصل ہوا۔ اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اور خانہ جنگی کے بعد (Colonolizatin)اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی ۔ جیسےجنگ عظیم اول کے بعد آسٹر ،ہنگری اور ترکی وغیرہ میں ،جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں ،‘‘کلونائیزیشن’’کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں،اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں۔
موجدہ دور میں ہم نے دیکھا کہ 2001میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر 2003اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذ کے لئے ہمیں خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطی میں اسی جمہوریت کے نفاذکے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔پس جان لیجئے کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی ۔
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کےافسانوں سے
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے ہمیشہ سے ہی مذہب اباحت ،دین کے منکر،مذہب اور دین کو جدا کر نے والے اور سودی کاروبار کو فروغ دینے والے بنے۔لہذانفاذ اور استحکام جمہوریت کے نتیجے میں ہمیشہ دین مغلوب ،مذہب سے دوری ، اخلاقی انحطاط اور سودی کاروبار کو استحکام اور فروغ ملا اور آج پاکستان میں جمہوری دانشوروں اور علمبردارطبقے میں زیادہ تر یہی لوگ نظر آئیں گے۔


Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

8/14/2012

نظام جمہوریت کے اجزائے ترکیبی


نظام جمہوریت کے اجزائے ترکیبی
جیسا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ جمہوریت دراصل ‘‘لوگوں کی اطاعت اور حکمرانی ’’کا نام ہے لہذااس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس جمہوریت کے تحت وجود میں آنے والا نظام ،کن عناصر کے باہمی تعامل سے وجود میں آتا ہے:
1۔ریاست (State):
لبرل ڈیموکریسیLiberal Democracyکے نظریہ کے تحت تاریخی تجربوں ،جغرافیائی سرحدوں ،مشترک زبان ، نسلی قربت اور ثقافت کی بنیاد پر موجودہ‘‘مغربی قومیت’’کے تصور سامنے آیا چناچہ اس کے نتیجےمیں ایک حکومت ، سیاسی آزادی اور خوداریت کے ذریعے ‘‘خودمختاری’’(Sovereignty)کی تشکیل ہوئی اور پھر مغربی قومیت اور خودمختیاری سے مل کر ‘‘قوم’’کا تصور بنا۔اسی طرح‘‘مارکس ازم ’’نظریہ اشتراکیت اور سرمایہ داری نے طبقاتی کشمکش(Class War)کے نظریات دیئے اور Liberal Democracyکےنظریہ کے تحت‘‘قومیت’’اور‘‘طبقاتی کشمکش’’کے باہمی تعامل سے Nation Stateکاتصور یعنی‘‘وطن’’کا تصور سامنے آیا اور آج مشرق و مغرب میں یہی تصور پورے آب وتابکے ساتھ رائج ہے۔
تقسیم الحکم‘‘ امر’’:
Liberal Democracyکے اصول کے تحت اس کو تقسیم کیا گیا لہذا‘‘الحکم’’کی جگہ‘‘تثلیث حکم’’قائم کی گئی ۔یعنی (مقنّہ)   (عدلیہ )  (انتظامیہ )
مساوات مذہب:
نظام جمہوریت میں تمام عقائد کے ماممے والوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ تبلیغ وترویج صرف مذہب یعنی فرد کے انفرادی معاملات کی حدتک ہو۔
حکومت اور مذہب کی علیحدگی:
نظام جمہوریت کا ایک اہم جز میں یہ ہے کہ نظام جمہوریت سے مذہب کا کو ئی واسطہ نہیں ہو نا چا ہیے۔
5۔سیاسی مساوات:
نظام جمہوریت کا اہم عنصر یہ بھی ہے کہ اس میں عام شہری کے سیاسی حقوق مساوی ہوتے ہیں ، جیسے عورت ،مرد،مسلم ، غیر مسلم کے سیاسی حقوق یکساں قرار پاتے ہیں۔
6۔آزاد انتخابات:
نظام جمہوریت کا ایک اہم جز ‘‘آزادانتخابات’’کا اصول بھی ہے جس کو ہم ‘‘مادر پدرآزادانتخابات’’بھی کہہ سکتے ہیں ۔ جس میں تمام معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ اپنی جماعت کے امیدوار کو ‘‘فرشتہ ’’اور مخالف امیدوار کو ‘‘شیطان’’ قرار دیا جاتاہے۔
7۔تصورنمائندگی:
نظام جمہوریت کے ایک بنیادی عنصر صاحب الرائے لوگوں کے بجائے صرف اپنے لوگوں کے حق میں فیصلہ دینا چاہے وہ کسی بھی کردار اور شخصیت کا حامل ہو۔
8۔اکثریت کی اطاعت:
نظام جمہوریت کا سب سے بنیادی عنصر ‘‘اکثریت کی اطاعت’’ہے جس پر اس نظام کی پوری عمارت کھڑی ہے۔
9۔جمہوریت اور سرمایہ کا گٹھ جوڑ:
جمہوریت کی ابتدا ہی فساد سے ہوتی ہے ۔انتخابی مہم میں جس طرح پیسہ بہایا جاتاہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔امریکہ کے صدارتی انتخابات معاملہ اس کی بہترین تصویر ہے۔جس میں بڑے بڑے بینکرزاور انویسٹر اس میں ملین آف ملین ڈالر لگاتے ہیں اور بعد میں اس فائدہ ‘‘ٹھیکوں’’کی صورت میں بلین آف بلین ڈالر کماتے ہیں۔

8/13/2012

(اسلام اورجمہوریت)


(اسلام اورجمہوریت)
اسلام‘‘دین’’ہے:
اس سے پہلے کہ ہم اسلام اورجمہوریت اور اس اجزائے ترکیبی کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھیں ۔اس سے پہلے ہم اسلام ‘جس کو قرآن نے‘‘دین اسلام’’قراردیا"
(اِنَّ الدِّینَ عِندَاللہِ الاِسلاَمُ)         (آل عمران:19)
بے شک اللہ تعالی کے نزدیک ‘‘دین’’’ صرف اسلام ہے۔
اس کو سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں کہ اسلام کے ‘‘دین ’’ہونے کے کیا معنی ہیں ؟قرآن کریم میں ‘‘دین’’چار معانی میں استعمال ہوا ہے:
1۔بدلہ۔۔۔۔(مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ)(الفاتحہ3)‘‘وہ بدلہ کے دن کا مالک ہے ’’۔
2۔قانون۔۔۔۔(دِینِ المَلِکِ)(یوسف76) ‘‘بادشاہ کا قانون’’ْ۔
3۔نظام۔۔۔۔(اِنّی  اَخَافُ اَن یُبَدِّلَ دِینَکُم)(المومن26)‘‘مجھے ڈر ہے کہ وہ تمھارے نظام کو نہ بدل دے’’۔
4۔اطاعت۔۔۔۔(اَلاَ لِلہ الدِّینُ الخَالِصُ)(الزمر:3)‘‘خبردار اللہ تعا لیٰ ہی کے لئے خالص اطاعت کرنا’’۔
ان چاروں معانی میں ایک باہمی ربط ہے ۔ ہر اچھے اور برے اعمال کا بدلہ ملنا چاہیے ، اور یہ بدلہ کسی قانون کے تحت دیا جاتا ہے، اور قانون کسی نہ کسی نظام کے تحت ہوتا ہے یا اس کا عکاس ہو تاہے، اور نظام وہی ہوتاہے جس کی جزوی نہیں بلکہ مکمل اطاعت کی جائے۔اس لئے قرآن کریم نے اسلام کےلئے‘‘دین’’کا لفظ نہیں بلکہ ‘‘الدین’’کا لفظ استعمال کیا۔ یعنی اس نظام کے آنے کے بعد جس کو اللہ تعالیٰ نے ‘‘کامل دین’’قراردیا۔
(اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ  لَکُم الاِسلَامَ دِیناً)
‘‘آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین (نظام)کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا’’
اب اس کے بعد زندگی کے کسی بھی معاملے میں چاہے وہ عبادات سے متعلق ہو یا انسان کے بودوباش سے متعلق ،انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی معاملات مثلا نظام معیشت ،نظام معاشرت اور سب سے بڑھ کر نظام سیاست سے متعلق ہو ، دین اسلام کے علاوہ کسی اور ‘‘دین’’یعنی نظام سے کوئی رہنمائے لے گا یا اس کے کسی عنصر کو اپنانے کی کو شش کرے گا تو وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخر ت میں خسارہ اٹھانے والا ہوگا۔
اب ہم جمہوریت کو سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں۔ جمہوریت میں در اصل ‘‘حاکمیت’’ کا حق عوام کو حاصل ہوتا ہے اور ان کا ہر حکم قانون کی حیظیت رکھتا ہے۔ گویا وہ حاکمیت جو فرعون اور اس جیسے دوسرے بادشاہ ‘‘دعوئے حاکمیت ’’ کی صورت میں کرتے تھے اب وہ حاکمیت کا دعویٰ ‘‘عوام کی حاکمیت’’ کی صورت میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ پہلے ایک بادشاہ گندگی کا ایک ٹوکرا ‘‘دعوئے حاکمیت‘‘کی صورت میں  اپنے سر پر لئے بیٹھا ہوتا تھا جیسے فرعون نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ: (یقَٰومِ اَلَیسَ لِی مُلکُ مِصرَ وَ ھَذِہِ الانھٰرُ تَجرِی مِن تَحتِی)(سورۃالزخرف:51)
‘‘لوگو!کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے اور یہ نہریں میرے نیچے (قبضے میں )نہیں بہہ رہی ہیں۔۔۔۔؟’’
اب وہ گندگی اور غلاظت ‘‘عوام کی حاکمیت’’ کی صورت میں تولہ تولہ ، ماشہ ماشہ، ایک ایک ووٹ کی صورت میں پوری عوام میں بانٹدی گئی ۔ چناچہ علامہ اقبال اپنی نظم ‘‘ابلیس کی مجلس شوریٰ’’میں جمہوریت کے حوالے سے شیطان کی  حکمتِ عملی کو اپنے الفاظ کے پیرائے میں یوں بیان کرتے ہیں :
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب   ذرا  آدم  ہوا  خود  شناس  و  خودنگر
چناچہ عوام کی حاکمیت کی    صورت میں عوام کے منخب نمائندے قانون سازی میں بااختیار ہو تے ہیں۔ منتخب نمائدوں کی اکثیت جو قانون چاہئ بناسکتی ہے۔ اب چاہے امریکہ کی پارلیمنٹ کی اکثریت شراب کو حلال کر دے ، چاہے برطانیہ کی پارلیمنٹ کی اکثریت homosextualityیعنی ‘‘مرد کی مرد سے شادی اور عورت کی عورت سے شادی ’’جائز ہونے کابل تالیوں کی گونج میں پاس کر دے یا چاہے پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریت ‘‘ حدوداللہ ’’ جو کہ قرآن و سنت میں نصِ قطعی سے ثابت ہیں، اُس میں یکسر تبدیلی کر کے شریعت کی دھجیاں بکھیر دے ، یہ اختیار ان کو حاصل ہوتا ہے ۔
اس کے بر عکس اسلامی نظام میں حکومت اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہی ‘‘اَحکَمُ الحَاکمین’’ہے اور پوری انسانیت اسی کی محکوم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(اِنِ الحُکمُ اِلا لِلّٰہِ)(سورۃیوسف:40)
‘‘حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے’’
(وَلَا یُشرِک فِی حُکمِہ اَحَدًا)(سورۃالکھف:26)
‘‘اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اپنے حکم کے اختیار میں کسی کو شریک کر تا ہے‘‘
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اک وہی باقی  بتانِ  آذری
اسی طرح اسلامی حکومت میں ‘‘خلیفۃ المسلمین’’اللہ کا نائب ہو تا ہے اور وہ قرآن و سنت کے مطابق حکومت کرتا ہے اور کسی بھی معاملے میں قانون کی تشریح وہ ‘‘شوریٰ ‘‘ ( وہ لوگ جو قرآن و حعیث کا گہرا علم رکھنے والے ہوں ان کے مشورہ) کے ذریعے قرآن و حدیث کے دیئے ہوئے دائرے کے اندر رہتے ہوئے  کرتا ہے گویا  وہ مطلق العنان غیر محدوداختیار ات کا مالک  نہیں ہوتا ہے ۔  چناچہ اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے۔
(یَااَیھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا لاَتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَتَّقُوااللّٰہ)(سورۃالحجرات:1)
‘‘اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول (کے مقرر کردہ حدود) سے آگے نہ بڑھو۔اور (اس معاملے میں) اللہ کی نافرمانی سے بچو’’۔
اس کے بر عکس آج کا جمہوری نظام جو در اصل ‘‘طاغوت’’ ہے ، اس میں اس بات کی کوئی قید نہیں کہ قانون سازی کرنے والے کون ہیں؟اور ان کا قرآن و حدیث کے بارے میں علم کتنا ہے ؟ وہ کس سیرت و کردار کے حامل ہیں ؟ اور وہ کن اصولوں  اور بنیادوں پر قانون سازی کر رہے ہیں؟ بس اصول ایک ہے م، وہ یہ کہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت نے یہ قانون پاس کیا ہے اور بس!!
اسی طرح جمہوریت کی ایک تعریف ‘‘اکثریت کی اطاعت’’بھی قرآن وحدیث سے متصادم ہے۔کیونکہ قرآن نے ہمیں واضح طور پر صرف  اللہ اور اس کے رسول اور شریعت کے دائرے میں اپنے اولیُ الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے نہ کہ اکثریت کی اطاعت کرنے کا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
(یَااَیُّھاالَّذِینَ اٰمَنُوااَطِیعُوا اللہَ و اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الاَمرِمِنکُم)(سورۃالنسا:59)
‘‘اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں’’۔
در اصل جمہوری نظام کا خاصہ یہ ہے کہ اس کفریہ نظام  میں عوام کی غالب اکثریت کی رائے کو معیار حق تسلیم کیا گیا ہے  یعنی عوام کی اکثریت کی جو رائے ہے وہی حو ہے ۔اس کے بر عکس قرآن نے واضح طور پر اس حقیقت لو واضح کر دیا کہ:
(وَاِن تُطِع اَکثَرَمَن فِی الاَرضِ یُضِلُو کَ عَن سَبِیلِ اللہ)
‘‘اور (اے نبی ﷺ)آپ اگر  کہا ما نیں گے اس اکثریت  کا جو زمین میں بستی ہے تو وہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے سے ہٹا دیں گے’’

اس بات سے یہ ثابت ہو گیا کہ خلا فت اور جمہوریت دو متصادم ہیں ۔ اسلام کی رو سے اللہ کے علاوہ کسی اور کو حاکم حقیقی سمجھنا اور اسے قانون سازی کا حق دینا سراسر گمراہی اور کفر وشرک ہے ۔ الغرض  جمہوریت کی بنیا دغیر اسلامی نظریہ پر قائم ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں  ہے۔

8/12/2012

نظامِ جمہوریت قرآن و سنت کی روشنی میں


نظامِ جمہوریت قرآن و سنت کی روشنی میں
 یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ادیان کفر میں سے ہر ایک ایسے نظام و منہج پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ سراسر اسلام کے خلاف اور اس کی ضد ہے ۔ اس میں کمیونزم ،سوشل ازم، سیکولرازم اور مشنریز وغیرہ جیسے جتنے نئے نظام و اصول سب شامل ہیں ۔ لوگ ان کو اپنے پراگندہ خیالات سے تشکیل دیتے ہیں اور پھر بطور دین انہیں اختیار کر لیتے ہیں ۔‘‘دین جمہوریت ’’بھی اس میں شامل ہے ۔ کیونکہ یہ بھی اللہ کے دین کے سوا ایک دین  ہے ۔ اس نئے دین میں جس کے فتنے میں اکثر لوگ بلکہ اکثر مسللمان مبتلا ہیں ۔ اس گمراہی واضح کرنے کے لئے چند بنیادی باتیں پیش خدمت ہیں تاکہ آپ یقین کر لیں کہ ‘‘جمہوریت ’’ ملت توحید سے الگ ایک مستقل دین اور صرط مستقیم سے الگ ایک مستقل راستہ ہے ، جس کے دروازے پر شیطان بیٹھا ہوا ہےجو کہ جہنم کی طرف داعی ہے ۔ لہذا یہ ضروی ہے کہ اہل ایمان اس سے اجتناب کریں اور اس سے اجتناب کی دعوت دیں مومنوں کی یاد دہانی ، غافلوں کی بیداری ، ضدی سرکشوں پر اقامت حجت اور رب العا لمین کے ہاں عذر خواہی کے لئے ۔ کیونکہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
(وَ مَن یَّبتَغِ غَیرَ الاَ سلَامِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَھُوَ فِی الاٰ خِرَۃِ مِنَ الخٰسِرِینَ)(آل عمران:85)
‘‘اور جو اسلام کے سوا کو ئی اور دین چاہے گا وہ اس سے کبھی قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا’’
1۔ وطن:
جمہوری نظام میں ایک نمایاں جزو‘‘وطن’’کا تصور ہے جو کہ تاریخی جغرافیائی ، نسلی ، قومی یا ثقافتی وغیرہ کی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں ۔ اور جب ان بنیادوں پر یہ وطن وجود میں آتے ہیں تو پھر از خود‘‘خودمختاری’’کا تصر بھی جنم لیتا ہے کہ ہر ملک آزاد ہے اور وہ اپنے معاملات طے کرنے میں خودمختار ہے ۔ یوں ‘‘نیشن اسٹیٹ ’’کا تصور سامنے آتا ہے ۔ لیکن اسلام ان تمام تصورات کی نفی کرتا ہے ۔ جو قومی ، نسلی اور تعصب کی بنیاد پر ہو ں ۔ اسلام پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند جوڑتا ہے اور انہیں ایک امت قرار دیتا ہے۔
(کُنتُم خَیرَ اُ مَّۃ اُخرِجَت  لِلنَّاسِ)(آل عمران:110)
‘‘تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (بھلائی ) کے لئے نکالا گیا ہے’’
یہی وہ وطن کا ‘‘شرکیہ ’’تصور ہے جس نے آج پوری امتِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ، لسانی  اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ علامہ اقبال اسی تصور کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہں کہ:
ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن  ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
اس کے بر عکس بقول علامہ اقبال ، اسلام کا تصور یہ ہے کہ؛
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
2۔تقسیم الحکم‘‘امر’’
اسلام میں ‘‘الحکم’’یا ‘‘امر’’شرعی اعتبار سے ابل ایک صالح خلیفہ کے گرد گھومتا ہے ۔ مختلف معاملات میںمشورہ کے لئے صائب  الرائے  افراد پر مشتمل شوریٰ تو ہوتی ہے  مگر خلیفہ کے پاس اصل اختیارات ہوتے ہیں لیکن Liberal Democracyکے اصول کے تحت اس کو تقسیم کر دیا گیا۔ لہذا ‘‘الحکم’’ کی جگہ ‘‘تثلیثِ حکم’’قائم کی گئی اور ان تینوں کو خود مختار قرار دیا گیا۔ جس کو آج ہمارئ لاں ریاست کے ‘‘تین ستون’’کا نام دیا جاتا ہے ۔
1۔مقنَّہ                                  2۔عدلیہ                   3۔انتظامیہ
اسی خباثت کے پھیل جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسولﷺنے فرمایا تھا
(لتنتقضن عری الاسلام عروۃ فکلما انتقضت عروۃ الناس بالتی تلیھا فاولھن نقضا الحکم و اخرھن الصلوۃ(شعب الایمان  ج 4ص326)
 ‘‘جب دین میں کو ئی ایک چیز  ٹوٹ جائے گی تو لوگ بقیہ چیزوں پر قناعت کر لیں گے ، یہاں تک  کہآخری چیز بھی ٹوٹ جائے گی۔ پھر  جو چیز سب سے  پہلے ٹوٹے گی وہ ‘‘الحکم ’’ہوگی اور سب سے آخر میں ٹوٹنے والی چیز ‘‘الصلوۃ ’’ یعنی نماز ہوگی’’
حکومت اور مذہب کی علیحدگی:
نظام جمہوریت کی بنیادی عناصر میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ حکو مت اور مذہب کا باہمی تعلق جختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی مذہب کو ریاست اور اس کے قوانین و معاملات میں کسی عمل دخل کی اجازت نہیں ہوتی اور جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ:
جدا ہو دین سے سیاست ، تو رہ جاتی ہے چنگیزی
چناچہ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسولﷺ نے فر مایاکہ
(الا ان رحا الا سلام دائر ۃ  فدوروا مع الکتاب الا ان الکتاب و السلطان  ستفرقان فلا تفارقوا الکتاب)    (معجم طبرانی کبیر عن معاذ بن جبلؓ)

‘‘اسلام کی چکی گردش میں ہے تو جدھر قرآن کا رخ ہو ا اسی طرف تم بھی گھوم جاو ، ہو شیار رہو ! قرآن اور اقتدار عنقریب الگ الگ ہو جائیں گے (خبردار )قرآن کو نہ چھوڑنا’’

8/11/2012

4۔مذہبی مساوات:


 مذہبی مساوات:
اسی طرح آزاد جمہوری نظام میں مذہبی مساوات بھی ہوتی ہے ۔ جس میں ہر مذہب کو اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کی کھلی اجازت ہو تی ہے ۔ جبکہ اسلامی نظام میں سوائے اسلام کے ہر مذہب کو چار دیواری کے اندر رہتے ہوے اپنے مذہب اور عقائد کی تبلیغ کی اجازت ہو تی ہے ۔اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتا کہ مشرکانہ اور باطل عقائد کی کھلم کھلا تبلیغ کی اجازت دی جائے اور لاکھوں کوگوں کو مرتد اور اسلام سے متنفر کر دیا جائے ۔جس مثال خود ہمارے ملک میں موجود ہے کہ عیسائی اور قادیانی مشنریز کے ذریعے کس طرح ہر سال ہزاروں مسلمان اسلام کی نعمت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور مرتد ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ اس لحاظ سے بھی جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں ، جن کا آپس میں دور تک  کوئی تعلق اور نسبت نہیں ۔
5۔سیاسی مساوات:
اسی طرح جمہوری نظام میں منتخب عوامی نمائندوں کی اکثریت کی رائے کو تر جیح حاصل ہوتی ہے  اور ان کی رائے کو قانون کا درجہ  حاصل ہوجاتا ہے ، چاہے وہ شریعت کے مطابق ہو، یا شریعت کے خلاف ہواس سے کوئی بحث نہیں ہو تی۔اسی طرح جمہوریت میں اعلیٰ تعلیم یا فتہ اور تعلیم سے ناواقف ،عالم اور جاہل ،ماہر فن اور فن سے نابلد، چوکیدار ، کلرک ،صحافی ،ماہر نفسیات،ماہر سیاسیات، پروفیسر، معیشت دان،تاجر ،مزدور،عورت ،مرد حتیٰ کہ مسلم اور غیر مسلم کی حیثیت برابر اور ان کی رائے اور ووٹ کا ایک ہی مقام اور درجہ ہوتاہے۔یہ بات نہ صرف خلاف اسلام بلکہ سراسرخلاف عقل و دانش ہے۔ہر شخص نہ تو ایک جیسی عقل  وذہانت کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی ایک جیسی صلاحیت رکھتا ہے ،اسی لئے ان کی آرا اور نظریات میں بھی واضح فرق ہوتا ہے ۔ اسلام نے اس فرق کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ واضح کر دیا ہے کہ صاحب علم اور جاہل ہر گز برابر نہیں ہو سکتے ۔ ارشاد باری ہےکہ:
(قُلْ ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوْاالْاَلْبَابِ)(سورۃالزمر:9)
‘‘آپ کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ۔بے شک اس میں اہل عقل کے لئے نصیحت ہے’’۔
در اصل حکو مت  اور ملکی نظم و نسق چلانے کے لئے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی بنسبت زیادہ صلاحیت و استعداد کی ضرورت ہوتی ہے ۔اَن پڑھ اور جاہل عوام جنہیں سیاسیات کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی وہ نظام حکومت کو چلانے کے مستحق کیسے قرار پاسکتے ہیں ؟نیز جب انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ملکی معاملات اور نظم و نسق کو کیسے چلایا جاتا ہے انہیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ فلاں شخص  ملکی نظم و نسق چلانے کا زیادہ مستحق ہے
۔لہذا وہ صحیح اور باصلاحیت افراد کو بھی بطور نمائندہ منتخب کر نے سے قاصر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اوپر ذکر کردہ سورۃ الاعراف کی آیت 116کے اگلے حصہ مین انسانوں کی عظیم اکثریت کی ذہنی نا پختگی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا:
(اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ)(سورۃ الاعراف:116)
‘‘وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ نہیں لگاتے مگر صرف تخمینے’’
بقول علامہ اقبال:
اس راز کو  ایک مردِ فرنگی نے کیا  فاش
ھر چند  کے دانا  اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِحکومت ہے جس میں

بندوں کو گِنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے

ShareThis

My Blog List