(اسلام اورجمہوریت)
اسلام‘‘دین’’ہے:
اس سے پہلے کہ ہم اسلام اورجمہوریت اور اس اجزائے ترکیبی کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھیں ۔اس سے پہلے ہم اسلام ‘جس کو قرآن نے‘‘دین اسلام’’قراردیا"
(اِنَّ الدِّینَ عِندَاللہِ الاِسلاَمُ) (آل عمران:19)
بے شک اللہ تعالی کے نزدیک ‘‘دین’’’ صرف اسلام ہے۔
اس کو سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں کہ اسلام کے ‘‘دین ’’ہونے کے کیا معنی ہیں ؟قرآن کریم میں ‘‘دین’’چار معانی میں استعمال ہوا ہے:
1۔بدلہ۔۔۔۔(مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ)(الفاتحہ3)‘‘وہ بدلہ کے دن کا مالک ہے ’’۔
2۔قانون۔۔۔۔(دِینِ المَلِکِ)(یوسف76) ‘‘بادشاہ کا قانون’’ْ۔
3۔نظام۔۔۔۔(اِنّی اَخَافُ اَن یُبَدِّلَ دِینَکُم)(المومن26)‘‘مجھے ڈر ہے کہ وہ تمھارے نظام کو نہ بدل دے’’۔
4۔اطاعت۔۔۔۔(اَلاَ لِلہ الدِّینُ الخَالِصُ)(الزمر:3)‘‘خبردار اللہ تعا لیٰ ہی کے لئے خالص اطاعت کرنا’’۔
ان چاروں معانی میں ایک باہمی ربط ہے ۔ ہر اچھے اور برے اعمال کا بدلہ ملنا چاہیے ، اور یہ بدلہ کسی قانون کے تحت دیا جاتا ہے، اور قانون کسی نہ کسی نظام کے تحت ہوتا ہے یا اس کا عکاس ہو تاہے، اور نظام وہی ہوتاہے جس کی جزوی نہیں بلکہ مکمل اطاعت کی جائے۔اس لئے قرآن کریم نے اسلام کےلئے‘‘دین’’کا لفظ نہیں بلکہ ‘‘الدین’’کا لفظ استعمال کیا۔ یعنی اس نظام کے آنے کے بعد جس کو اللہ تعالیٰ نے ‘‘کامل دین’’قراردیا۔
(اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُم الاِسلَامَ دِیناً)
‘‘آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین (نظام)کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا’’
اب اس کے بعد زندگی کے کسی بھی معاملے میں چاہے وہ عبادات سے متعلق ہو یا انسان کے بودوباش سے متعلق ،انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی معاملات مثلا نظام معیشت ،نظام معاشرت اور سب سے بڑھ کر نظام سیاست سے متعلق ہو ، دین اسلام کے علاوہ کسی اور ‘‘دین’’یعنی نظام سے کوئی رہنمائے لے گا یا اس کے کسی عنصر کو اپنانے کی کو شش کرے گا تو وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخر ت میں خسارہ اٹھانے والا ہوگا۔
اب ہم جمہوریت کو سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں۔ جمہوریت میں در اصل ‘‘حاکمیت’’ کا حق عوام کو حاصل ہوتا ہے اور ان کا ہر حکم قانون کی حیظیت رکھتا ہے۔ گویا وہ حاکمیت جو فرعون اور اس جیسے دوسرے بادشاہ ‘‘دعوئے حاکمیت ’’ کی صورت میں کرتے تھے اب وہ حاکمیت کا دعویٰ ‘‘عوام کی حاکمیت’’ کی صورت میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ پہلے ایک بادشاہ گندگی کا ایک ٹوکرا ‘‘دعوئے حاکمیت‘‘کی صورت میں اپنے سر پر لئے بیٹھا ہوتا تھا جیسے فرعون نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ: (یقَٰومِ اَلَیسَ لِی مُلکُ مِصرَ وَ ھَذِہِ الانھٰرُ تَجرِی مِن تَحتِی)(سورۃالزخرف:51)
‘‘لوگو!کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے اور یہ نہریں میرے نیچے (قبضے میں )نہیں بہہ رہی ہیں۔۔۔۔؟’’
اب وہ گندگی اور غلاظت ‘‘عوام کی حاکمیت’’ کی صورت میں تولہ تولہ ، ماشہ ماشہ، ایک ایک ووٹ کی صورت میں پوری عوام میں بانٹدی گئی ۔ چناچہ علامہ اقبال اپنی نظم ‘‘ابلیس کی مجلس شوریٰ’’میں جمہوریت کے حوالے سے شیطان کی حکمتِ عملی کو اپنے الفاظ کے پیرائے میں یوں بیان کرتے ہیں :
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا خود شناس و خودنگر
چناچہ عوام کی حاکمیت کی صورت میں عوام کے منخب نمائندے قانون سازی میں بااختیار ہو تے ہیں۔ منتخب نمائدوں کی اکثیت جو قانون چاہئ بناسکتی ہے۔ اب چاہے امریکہ کی پارلیمنٹ کی اکثریت شراب کو حلال کر دے ، چاہے برطانیہ کی پارلیمنٹ کی اکثریت homosextualityیعنی ‘‘مرد کی مرد سے شادی اور عورت کی عورت سے شادی ’’جائز ہونے کابل تالیوں کی گونج میں پاس کر دے یا چاہے پاکستان کی پارلیمنٹ کی اکثریت ‘‘ حدوداللہ ’’ جو کہ قرآن و سنت میں نصِ قطعی سے ثابت ہیں، اُس میں یکسر تبدیلی کر کے شریعت کی دھجیاں بکھیر دے ، یہ اختیار ان کو حاصل ہوتا ہے ۔
اس کے بر عکس اسلامی نظام میں حکومت اور قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہی ‘‘اَحکَمُ الحَاکمین’’ہے اور پوری انسانیت اسی کی محکوم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(اِنِ الحُکمُ اِلا لِلّٰہِ)(سورۃیوسف:40)
‘‘حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے’’
(وَلَا یُشرِک فِی حُکمِہ اَحَدًا)(سورۃالکھف:26)
‘‘اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اپنے حکم کے اختیار میں کسی کو شریک کر تا ہے‘‘
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
اسی طرح اسلامی حکومت میں ‘‘خلیفۃ المسلمین’’اللہ کا نائب ہو تا ہے اور وہ قرآن و سنت کے مطابق حکومت کرتا ہے اور کسی بھی معاملے میں قانون کی تشریح وہ ‘‘شوریٰ ‘‘ ( وہ لوگ جو قرآن و حعیث کا گہرا علم رکھنے والے ہوں ان کے مشورہ) کے ذریعے قرآن و حدیث کے دیئے ہوئے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کرتا ہے گویا وہ مطلق العنان غیر محدوداختیار ات کا مالک نہیں ہوتا ہے ۔ چناچہ اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے۔
(یَااَیھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا لاَتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَتَّقُوااللّٰہ)(سورۃالحجرات:1)
‘‘اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول (کے مقرر کردہ حدود) سے آگے نہ بڑھو۔اور (اس معاملے میں) اللہ کی نافرمانی سے بچو’’۔
اس کے بر عکس آج کا جمہوری نظام جو در اصل ‘‘طاغوت’’ ہے ، اس میں اس بات کی کوئی قید نہیں کہ قانون سازی کرنے والے کون ہیں؟اور ان کا قرآن و حدیث کے بارے میں علم کتنا ہے ؟ وہ کس سیرت و کردار کے حامل ہیں ؟ اور وہ کن اصولوں اور بنیادوں پر قانون سازی کر رہے ہیں؟ بس اصول ایک ہے م، وہ یہ کہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت نے یہ قانون پاس کیا ہے اور بس!!
اسی طرح جمہوریت کی ایک تعریف ‘‘اکثریت کی اطاعت’’بھی قرآن وحدیث سے متصادم ہے۔کیونکہ قرآن نے ہمیں واضح طور پر صرف اللہ اور اس کے رسول اور شریعت کے دائرے میں اپنے اولیُ الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے نہ کہ اکثریت کی اطاعت کرنے کا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
(یَااَیُّھاالَّذِینَ اٰمَنُوااَطِیعُوا اللہَ و اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الاَمرِمِنکُم)(سورۃالنسا:59)
‘‘اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں’’۔
در اصل جمہوری نظام کا خاصہ یہ ہے کہ اس کفریہ نظام میں عوام کی غالب اکثریت کی رائے کو معیار حق تسلیم کیا گیا ہے یعنی عوام کی اکثریت کی جو رائے ہے وہی حو ہے ۔اس کے بر عکس قرآن نے واضح طور پر اس حقیقت لو واضح کر دیا کہ:
(وَاِن تُطِع اَکثَرَمَن فِی الاَرضِ یُضِلُو کَ عَن سَبِیلِ اللہ)
‘‘اور (اے نبی ﷺ)آپ اگر کہا ما نیں گے اس اکثریت کا جو زمین میں بستی ہے تو وہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے سے ہٹا دیں گے’’
اس بات سے یہ ثابت ہو گیا کہ خلا فت اور جمہوریت دو متصادم ہیں ۔ اسلام کی رو سے اللہ کے علاوہ کسی اور کو حاکم حقیقی سمجھنا اور اسے قانون سازی کا حق دینا سراسر گمراہی اور کفر وشرک ہے ۔ الغرض جمہوریت کی بنیا دغیر اسلامی نظریہ پر قائم ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment