8/12/2012

نظامِ جمہوریت قرآن و سنت کی روشنی میں


نظامِ جمہوریت قرآن و سنت کی روشنی میں
 یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ادیان کفر میں سے ہر ایک ایسے نظام و منہج پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ سراسر اسلام کے خلاف اور اس کی ضد ہے ۔ اس میں کمیونزم ،سوشل ازم، سیکولرازم اور مشنریز وغیرہ جیسے جتنے نئے نظام و اصول سب شامل ہیں ۔ لوگ ان کو اپنے پراگندہ خیالات سے تشکیل دیتے ہیں اور پھر بطور دین انہیں اختیار کر لیتے ہیں ۔‘‘دین جمہوریت ’’بھی اس میں شامل ہے ۔ کیونکہ یہ بھی اللہ کے دین کے سوا ایک دین  ہے ۔ اس نئے دین میں جس کے فتنے میں اکثر لوگ بلکہ اکثر مسللمان مبتلا ہیں ۔ اس گمراہی واضح کرنے کے لئے چند بنیادی باتیں پیش خدمت ہیں تاکہ آپ یقین کر لیں کہ ‘‘جمہوریت ’’ ملت توحید سے الگ ایک مستقل دین اور صرط مستقیم سے الگ ایک مستقل راستہ ہے ، جس کے دروازے پر شیطان بیٹھا ہوا ہےجو کہ جہنم کی طرف داعی ہے ۔ لہذا یہ ضروی ہے کہ اہل ایمان اس سے اجتناب کریں اور اس سے اجتناب کی دعوت دیں مومنوں کی یاد دہانی ، غافلوں کی بیداری ، ضدی سرکشوں پر اقامت حجت اور رب العا لمین کے ہاں عذر خواہی کے لئے ۔ کیونکہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
(وَ مَن یَّبتَغِ غَیرَ الاَ سلَامِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَھُوَ فِی الاٰ خِرَۃِ مِنَ الخٰسِرِینَ)(آل عمران:85)
‘‘اور جو اسلام کے سوا کو ئی اور دین چاہے گا وہ اس سے کبھی قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا’’
1۔ وطن:
جمہوری نظام میں ایک نمایاں جزو‘‘وطن’’کا تصور ہے جو کہ تاریخی جغرافیائی ، نسلی ، قومی یا ثقافتی وغیرہ کی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں ۔ اور جب ان بنیادوں پر یہ وطن وجود میں آتے ہیں تو پھر از خود‘‘خودمختاری’’کا تصر بھی جنم لیتا ہے کہ ہر ملک آزاد ہے اور وہ اپنے معاملات طے کرنے میں خودمختار ہے ۔ یوں ‘‘نیشن اسٹیٹ ’’کا تصور سامنے آتا ہے ۔ لیکن اسلام ان تمام تصورات کی نفی کرتا ہے ۔ جو قومی ، نسلی اور تعصب کی بنیاد پر ہو ں ۔ اسلام پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند جوڑتا ہے اور انہیں ایک امت قرار دیتا ہے۔
(کُنتُم خَیرَ اُ مَّۃ اُخرِجَت  لِلنَّاسِ)(آل عمران:110)
‘‘تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (بھلائی ) کے لئے نکالا گیا ہے’’
یہی وہ وطن کا ‘‘شرکیہ ’’تصور ہے جس نے آج پوری امتِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ، لسانی  اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ علامہ اقبال اسی تصور کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہں کہ:
ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن  ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
اس کے بر عکس بقول علامہ اقبال ، اسلام کا تصور یہ ہے کہ؛
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
2۔تقسیم الحکم‘‘امر’’
اسلام میں ‘‘الحکم’’یا ‘‘امر’’شرعی اعتبار سے ابل ایک صالح خلیفہ کے گرد گھومتا ہے ۔ مختلف معاملات میںمشورہ کے لئے صائب  الرائے  افراد پر مشتمل شوریٰ تو ہوتی ہے  مگر خلیفہ کے پاس اصل اختیارات ہوتے ہیں لیکن Liberal Democracyکے اصول کے تحت اس کو تقسیم کر دیا گیا۔ لہذا ‘‘الحکم’’ کی جگہ ‘‘تثلیثِ حکم’’قائم کی گئی اور ان تینوں کو خود مختار قرار دیا گیا۔ جس کو آج ہمارئ لاں ریاست کے ‘‘تین ستون’’کا نام دیا جاتا ہے ۔
1۔مقنَّہ                                  2۔عدلیہ                   3۔انتظامیہ
اسی خباثت کے پھیل جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسولﷺنے فرمایا تھا
(لتنتقضن عری الاسلام عروۃ فکلما انتقضت عروۃ الناس بالتی تلیھا فاولھن نقضا الحکم و اخرھن الصلوۃ(شعب الایمان  ج 4ص326)
 ‘‘جب دین میں کو ئی ایک چیز  ٹوٹ جائے گی تو لوگ بقیہ چیزوں پر قناعت کر لیں گے ، یہاں تک  کہآخری چیز بھی ٹوٹ جائے گی۔ پھر  جو چیز سب سے  پہلے ٹوٹے گی وہ ‘‘الحکم ’’ہوگی اور سب سے آخر میں ٹوٹنے والی چیز ‘‘الصلوۃ ’’ یعنی نماز ہوگی’’
حکومت اور مذہب کی علیحدگی:
نظام جمہوریت کی بنیادی عناصر میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ حکو مت اور مذہب کا باہمی تعلق جختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی مذہب کو ریاست اور اس کے قوانین و معاملات میں کسی عمل دخل کی اجازت نہیں ہوتی اور جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ:
جدا ہو دین سے سیاست ، تو رہ جاتی ہے چنگیزی
چناچہ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسولﷺ نے فر مایاکہ
(الا ان رحا الا سلام دائر ۃ  فدوروا مع الکتاب الا ان الکتاب و السلطان  ستفرقان فلا تفارقوا الکتاب)    (معجم طبرانی کبیر عن معاذ بن جبلؓ)

‘‘اسلام کی چکی گردش میں ہے تو جدھر قرآن کا رخ ہو ا اسی طرف تم بھی گھوم جاو ، ہو شیار رہو ! قرآن اور اقتدار عنقریب الگ الگ ہو جائیں گے (خبردار )قرآن کو نہ چھوڑنا’’

No comments:

Post a Comment

ShareThis

My Blog List