اسی طرح آزاد جمہوری نظام میں مذہبی مساوات بھی ہوتی ہے ۔ جس میں ہر مذہب کو اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کی کھلی اجازت ہو تی ہے ۔ جبکہ اسلامی نظام میں سوائے اسلام کے ہر مذہب کو چار دیواری کے اندر رہتے ہوے اپنے مذہب اور عقائد کی تبلیغ کی اجازت ہو تی ہے ۔اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتا کہ مشرکانہ اور باطل عقائد کی کھلم کھلا تبلیغ کی اجازت دی جائے اور لاکھوں کوگوں کو مرتد اور اسلام سے متنفر کر دیا جائے ۔جس مثال خود ہمارے ملک میں موجود ہے کہ عیسائی اور قادیانی مشنریز کے ذریعے کس طرح ہر سال ہزاروں مسلمان اسلام کی نعمت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور مرتد ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ اس لحاظ سے بھی جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں ، جن کا آپس میں دور تک کوئی تعلق اور نسبت نہیں ۔
5۔سیاسی مساوات:
اسی طرح جمہوری نظام میں منتخب عوامی نمائندوں کی اکثریت کی رائے کو تر جیح حاصل ہوتی ہے اور ان کی رائے کو قانون کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے ، چاہے وہ شریعت کے مطابق ہو، یا شریعت کے خلاف ہواس سے کوئی بحث نہیں ہو تی۔اسی طرح جمہوریت میں اعلیٰ تعلیم یا فتہ اور تعلیم سے ناواقف ،عالم اور جاہل ،ماہر فن اور فن سے نابلد، چوکیدار ، کلرک ،صحافی ،ماہر نفسیات،ماہر سیاسیات، پروفیسر، معیشت دان،تاجر ،مزدور،عورت ،مرد حتیٰ کہ مسلم اور غیر مسلم کی حیثیت برابر اور ان کی رائے اور ووٹ کا ایک ہی مقام اور درجہ ہوتاہے۔یہ بات نہ صرف خلاف اسلام بلکہ سراسرخلاف عقل و دانش ہے۔ہر شخص نہ تو ایک جیسی عقل وذہانت کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی ایک جیسی صلاحیت رکھتا ہے ،اسی لئے ان کی آرا اور نظریات میں بھی واضح فرق ہوتا ہے ۔ اسلام نے اس فرق کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ واضح کر دیا ہے کہ صاحب علم اور جاہل ہر گز برابر نہیں ہو سکتے ۔ ارشاد باری ہےکہ:
(قُلْ ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوْاالْاَلْبَابِ)(سورۃالزمر:9)
‘‘آپ کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ۔بے شک اس میں اہل عقل کے لئے نصیحت ہے’’۔
در اصل حکو مت اور ملکی نظم و نسق چلانے کے لئے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی بنسبت زیادہ صلاحیت و استعداد کی ضرورت ہوتی ہے ۔اَن پڑھ اور جاہل عوام جنہیں سیاسیات کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی وہ نظام حکومت کو چلانے کے مستحق کیسے قرار پاسکتے ہیں ؟نیز جب انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ملکی معاملات اور نظم و نسق کو کیسے چلایا جاتا ہے انہیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ فلاں شخص ملکی نظم و نسق چلانے کا زیادہ مستحق ہے
۔لہذا وہ صحیح اور باصلاحیت افراد کو بھی بطور نمائندہ منتخب کر نے سے قاصر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اوپر ذکر کردہ سورۃ الاعراف کی آیت 116کے اگلے حصہ مین انسانوں کی عظیم اکثریت کی ذہنی نا پختگی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا:
(اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ)(سورۃ الاعراف:116)
‘‘وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ نہیں لگاتے مگر صرف تخمینے’’
بقول علامہ اقبال:
اس راز کو ایک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ھر چند کے دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِحکومت ہے جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے
No comments:
Post a Comment