جمہوریت کے حوالے سے ایک غلط فہمی۔
دورِ حاضر میں بشمول دینی عناصر، لوگوں کے ذہن میں جمہوریت کے حوالے سے ایک مغالطہ یہ ہے کہ جمہوریت 200 سال قبل انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی ایک نئی قسم‘‘لبرل ڈیموکریسی Liberal Democracy ’’ انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ چنانچہ اس کے ساتھ یہ سمجھ لینا ضڑوری ہے کہ اس جمہوریت کی تاریخ کیا ہے اور اس کا سفر کیسے طے ہوا ہے؟
1265میں انگلستان کی پہلی انتخابی پارلیمنٹ کی صورت میں ‘‘کامل جمہوریت’’ کی طرف پہلا قدم طے ہوا۔
1517 میں جب مارٹن لوتھر(Martin Luthar) نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور اصلاح کے نام پر اپنے مقالے چرچ کے دروازے پر نصب کرکے چرچ سے آزادی کا اعلان کردیا، یہی نظریہ 1688 کی ‘‘انگلش سول وار’’ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جبکہ ‘‘سینٹ’’ کے لیڈر کروم ویل(Cromwell) نے انگلستان کے بادشاہ ہنری آئی کو شکست دیکر سولی پر چڑھادیا۔ اس انقلاب کو گلوریس ریولیشن(Golorios Revelotion) کہا جاتا ہے، اور اسی کے بعد بادشاہت کا خاتمہ اور جمہوری دور کا آغاز ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ:
1۔ تمامذاہب برابر قرار پائے جس کی رو سے(Freedom of Religon) کا نظریہ سامنے آیا جو کہ (Free from the Religon) یعنی تمام مذاہب سے آزادی کا باعث بنا۔
2۔ کلیسا اور اسٹیٹ میں جدائی ہوگئی یعنی ریاست کے معاملات میں مذہب کا عمل دخل ختم کردیا گیا۔
3۔ Bank of England کا قیام عمل میں آیا جس کے ذریعے سرمایا دارانہ نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
4۔ سیاست جاگیرداروں Land Lords سے منتقل ہو کر سرمایہ داری میں منتقل ہوگئی۔
انقلابِ فرانس جس کو انسانی تاریخ میں‘‘جمہوریت’’ کی ابتدا کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے یہ دراصل والٹیئر(Volataire)(1694-1778) اور روسل Rossel(1712-1778( جیسے بدقماش اور بدمعاش انسانوں کے فلسفوں اور نظریات کا نتیجہ تھا، جن کو آج انسانی تاریخ کے عظیم مفکرین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان بدقماشوں کے عقائد میں یہ بات شامل تھی کہ ‘‘عیسائیت’’ پر عمل کرنا دراصل گھر پر کام کرنے والی خادماوں پر لازم ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں اور ان لوگوں کے عشق ومحبت کے فسانے اور زناکاریاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چنانچہ ان دونوں کی تحریروں کے نتیجے میں 1789 انقلابِ فرانس رونما ہوا جس کے درج ذیل بھیانک نتائج نکلے:
1۔لا مذہبیت کو قانونی تشخص حاصل ہوا۔
2۔مذہب سے آزادی حاصل ہوئی ۔یعنی مذہب کو ایک بےکار شے سمجھا گیا۔
3سیاسی حقوق میں مساوات کے تصور کو تسلیم کیا گیا جس کی رو سے معاشرے کے ہر فرد کے حق رائے دہی کو بغیر کسی تخصیص کے برابر تسلیم کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں (Liberal Democracy)کا فلسفہ معرض وجود میں آیا۔
4۔تقسیم الحکم یعنی نظام حکومت کو تثلیث کی شکل میں تقسیم کر دیا گیا۔ مقنّہ ،عدلیہ اور انتظامیہ۔
6۔اور یہودیوں کا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار‘‘بینک’’یعنی بینک آف فرانس قیام عمل میں آیا۔
یہ بات بھی قابل بھی قابل غور ہے کہ اس(Liberal Denocracy)کو1900تک یعنی انقلاب فرانس کے 100سال تک بقیہ دنیا میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور 1900 تک کل تین ہی ممالک یعنی امریکہ ،برطانیہ اور فرانس ان جمہوری اصولوں پر قائم تھے‘‘جمہوریت’’کو اصل فروغ پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور خصوصا جنگ عظیم دوم کے بعد حاصل ہوا۔ اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اور خانہ جنگی کے بعد (Colonolizatin)اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی ۔ جیسےجنگ عظیم اول کے بعد آسٹر ،ہنگری اور ترکی وغیرہ میں ،جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں ،‘‘کلونائیزیشن’’کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں،اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں۔
موجدہ دور میں ہم نے دیکھا کہ 2001میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر 2003اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذ کے لئے ہمیں خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطی میں اسی جمہوریت کے نفاذکے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔پس جان لیجئے کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی ۔
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کےافسانوں سے
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے ہمیشہ سے ہی مذہب اباحت ،دین کے منکر،مذہب اور دین کو جدا کر نے والے اور سودی کاروبار کو فروغ دینے والے بنے۔لہذانفاذ اور استحکام جمہوریت کے نتیجے میں ہمیشہ دین مغلوب ،مذہب سے دوری ، اخلاقی انحطاط اور سودی کاروبار کو استحکام اور فروغ ملا اور آج پاکستان میں جمہوری دانشوروں اور علمبردارطبقے میں زیادہ تر یہی لوگ نظر آئیں گے۔